The InKtrepreneurs’ Den

Stay InKspired!

چراغِ برقِ تحقیقے، نمی باشد در ایں وادی
سیاہی کرد ایں جا، گر ہمہ خورشید پیدا شُد

(عبدالقادر بیدل دہلوی)

جب تحقیق و جستجو کا چراغ اس وادی میں موجود نہیں ہے تو، چاہے کتنے ہی سورج کیوں نہ نکل آئیں، تاریکی ختم نہیں ہو سکتی۔

تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی

(شیخ سعدی)

کیا تُو نے زمین کا کام سنوار لِیا ہے جو آسمان کی طرف پرواز کر رہا ہے؟

تُجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو


ارجنٹائن کا عظیم لکھاری بورخیس لکھتا ہے؛
’’میں کتاب سے ہو کر ہمیشہ زندگی کی طرف آیا ہوں۔‘‘

اس کے خیال میں زندگی بذاتِ خود کائنات کی عظیم ترین کتاب سے ایک اقتباس ہے۔ لِکھنے والوں کی روح پرواز کر جاتی ہے تو ان کا وجود اپنی ہی لکھی کتابوں میں ڈھل جاتاہے۔یعنی پھر وہ اپنے لفظوں میں سانس لیتے ہیں مگر ان کی دھڑکن فقط اسے سنائی دیتی ہے جسے کتاب سے عشق ہو۔

نوبل انعام یافتہ، ہزاروں مضامین اور متعدد کتابوں کے مصنف، پروفیسر تھیوڈور مومسن کو کتاب سے ایسا عشق تھا کہ جب کتاب ہاتھ میں ہوتی تو باقی دنیا کا ہوش ہی نہ رہتا۔ایک باربرلن کی طرف سفر کے دوران وہ گھوڑا گاڑی میں بیٹھے کتاب میں کچھ یوں غرق ہوا، گردو نواح سے یکسر بے گانہ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد پاس بیٹھے بچے کے مسلسل رونے کا شور سن کر اس نے کتاب سے نظریں ہٹائیں اور قدرے خفا ہو کر بچے سے پوچھا
’’بیٹا،کون ہو تم ؟ نام کیا ہے تمہارا؟‘‘
بچے نے حیرانی سے جواب دیا
’’ کیوں پاپا، آپ مجھے نہیں جانتے؟ میں آپ ہی کا بیٹا ہینرک ہوں۔‘‘
پروفیسر مسکرا دیا۔

پروفیسر نے جس عشق کے سہارے زندگی بسر کی، موت بھی اسی عشق کا آخری بوسہ لے کر قبول کی۔
26 جنوری 1903 ء کو پچاسی برس کا بوڑھا پروفیسر سیڑھی پر چڑھ کر اپنی لائبریری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھی ایک کتاب نکال کراسی میں کھو گیا اورپھِر بے خیالی میں موم بتی کو اپنے اس قدر نزدیک لے آیا ، اس کے بالوں میں شعلہ بھڑک اٹھا۔ شعلے کو بجھانے کے لیے، اس نے جلدی سے اپنے سٹڈی گائون سے سر کو ڈھانپنے کی کوشش کی مگر پھر بھی اس کا چہرہ جھلس گیا اور سارے بال جل گئے۔ چند ماہ، اس نے عشق کے اس درد کو جھیلا اور پھر مٹی میں دفن ہو کر اپنی کتابوں میں زندہ ہو گیا۔

پیرس سے تعلق رکھنے والے کتاب دوست سلویسٹر ڈی ساسی نے جب دیکھا کہ زندگی کا سورج اب ڈھلنے کو ہے، تو مغموم لہجے میں اپنی کتابوں سے مخاطب ہو کر چِلّایا
اے مجھے میری جان سے عزیز کتابو! ایک ایسا بھی دِن آئے گا، جب میرے بعد تمہیں نمائشی کمروں میں رکھی میزوں پر سجا دیا جائے گااور لوگ تمہاری بولیاں لگائیں گے اور پھِر تُم پر اپنی ملکیت کا حَق بھی جتائیں گے — وہ سبھی لوگ، شاید، تمہارے اِس بُوڑھے دوست سے زیادہ تمہارے اہل نہیں ہوں گے، پَر پھِر بھی وہ سب مجھے بے حد عزیز ہیں، کیوں کہ، یہ میری ہی مسلسل تگ و دو اور دوڑ دھوپ کا نتیجہ ہے کہ وہ مختلف مقامات سے ایک ایک کر کے بِالآخر ایک مقام پریکجاہوئے ہوں گے۔ میں تم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔ یوں لگتا ہے، اتنی طویل اور دِل کش رفاقت کے بعد ، تم سب میرے وجود کا حِصّہ بن گئی ہو مگر (افسوس ) اس دُنیا میں کوئی بھی محفُوظ نہیں ہے۔
اور پھِر 1838ء میں اِس دُنیا کو چھوڑ جانے کے 5 برس بعد، نیلامی کے لیے میزوں پر ترتیب سے رکھِیں ان کتابوں کو خریدنے کے لیے کثیر تعداد میں مداحوں کا ایک ہجوم وہاں موجود تھا۔

نِصف صدی بعد، ایک اور بے مِثل عِلم دوست ہستی ایڈمَنڈ ڈی گان کوَرٹ کی اِس وصیت میں کتاب اور فن سے عِشق کی ایک جُداگانہ جھلک نظر آتی ہے؛
میری وصیّت یہ ہے؛ میری ڈرائینگز، میرے پرِنٹس، میرے نوادرات، میری کتابیں— مختصر یہ کہ، فن کے یہ سارے شاہکار، جو زِندگی میں میرے لیے مسّرت کا سبب ہیں— کسی صورت بھی میوزیم جیسے ویران مقبرے کے حوالے نہ کیے جائیں۔ وہاں ان کی قسمت میں سیر کی خاطر آنے والوں کی فقط بے مہر سرسری نگاہوں کے سوا اورکچھ نہ ہوگا۔
میرا یہ شدید مطالبہ ہے، انہیں نیلامی کے کڑے مرحلے سے گزارا جائے تا کہ ان سب کے حصول کے لیے میں جس لُطف و مسّرت سے گزرا، میرے ہم ذوق بھی اسی کیفیت سے سرشار ہوسکیں۔

کہانی کار گِسٹاو فلوبیخ کی کہانی کا ایک کردار، کُتب فروش جَیا کومو اپنے پیشے سے والہانہ عقیدت رکھتا ہے۔ وہ بمشکل پڑھنا لکھنا جانتا ہے لیکن اس کی نگاہوں میں ایک ہی تشنگی ہے، وہ کتابوں کے درمیان بیٹھارہے، اور انہیں دیکھ دیکھ کر اپنی نظروں کی پیاس بجھاتا رہے۔ اسے کھانے پینے کی ہوش ہے اور نہ نیند کی طلب۔پُورا دِن، اس کی جاگتی آنکھیںبس ایک ہی خواب دیکھتی ہیں؛—’ کتابیں‘۔

بورخیس لائبریری کے حوالے سے اپنے تاثرات یوں بیان کرتا ہے
میں نے ہمیشہ یہی تصور کیا ہے ، جنت ایک طرح کی لائبریری ہو گی۔

کائونٹ ہنری ڈی لا بیڈوئیرکے پاس انقلاب فرانس کے موضوع پر بے شمار کتب کا ذخِیرہ تھا۔ بِیس بَرس بعد، اُس نے وہ ساری کُتب نیلامی میں فروخت کر دِیں۔ چند دِن کے اندر ہی اُس پر پچھتاوے کا ایسا غلبہ ہُوا کہ وہ ایک ایک کر کے انھیں دوبارہ خریدنا شروع ہو گیا۔جب 1861 ء میں اُس کی وفات ہُوئی تو اس کی لائبریری میں نہ صِرف پچھلی ساری کُتب موجود تھیں بلکہ بے شمار اور کُتب کا اضافہ بھی ہو گیا تھا۔

ایک امریکی جلاوطن کتاب دوست شخص مِسٹر برایَن نے پیرس کی لائبریری میں اپنی 150 محبوب ترین کتب بطور ہدیہ پیش کِیں۔ برسوں بعد، 1903 ء میں، ایک بوڑھا شخص پھٹے حالوں اُس لائبریری میں داخِل ہُوا۔ یہ وہی مِسٹر برایَن تھا۔ اُس نے بَس یہی کہا،
’’میں اپنی کتابیں ایک بارپھِر سے دیکھنے آیا ہوں۔‘‘
اس کے بعد اپنی ایک ایک کتاب پر اُس نے پیار بھری نظر ڈالی اور خاموشی سے لائبریری سے باہر نکل گیا۔
ٹھیک، دو روز بعد، وہ وفات پا گیا۔

یہ وہ کتاب دوست افراد تھے، جو کتاب کی محبت میں جیے اور کتاب کے عشق میں ہی فنا ہوئے۔

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں

(شاعر: اعجاز توکل)

🌹 Sharing is Caring 🌹

اگر آپ کو نیا آئیڈیا چاہیے، تو کوئی پرانی کتاب پڑھیں۔

آپ کی زِندگی میں دو دِن سب سے زیادہ اہم ہیں؛ پہلا وہ، جب آپ پیدا ہوئے، اور دوسرا وہ، جِس دِن آپ کو (اپنے پیدا ہونے کا) مقصدمل گیا۔“

(مارک ٹوئن)

آج آپ کی بقیہ زندگی کا پہلا دن ہے۔

قندِیلِ مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا
کچھ اس سے زیادہ ہے، ِمرا خاک پہ ہونا

(ثروت حسین)

اگر آپ کسی عام آدمی کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا اسے تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ خوش ہے تو اسے پیسہ، طاقت، خوشامد، تحائف اور اعزازات دیں۔
اگر آپ کسی عقلمند آدمی کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اپنی ذات کو بہتر بنائیں۔

(ادریس شاہ)
Stay Inkspired!

دی انکسپریشنز‘ دراصل دورانِ مطالعہ مختلف کتب سے حاصل کی گئی وہ خوشبو ہے جو آگہی اور بصیرت سے دِل و دماغ کو معطر کردیتی ہے۔ خوشبو کی فطرت میں ٹھہراؤ تو ہے نہیں، بلکہ مسلسل سفر ہے اورکسی خیال کے ہلکے سے جھونکے کے ساتھ ہی یہ نئے لفظوں کا لبادہ اوڑھ کر پھر سے رخت سفر باندھ لیتی ہے۔ یہ تحریریں بھی خوشبو کے اسی لامتناہی سفر کا ایک خاموش تسلسل ہیں۔

سب کچھ پہلے سے کہا جا چکا ہے، لیکن چونکہ کوئی ٹھیک سے سن نہیں رہا تھا، ہمیں دوبارہ آغاز کرنا پڑے گا۔

(آندرے ژید)

انتساب

ماں کے نام

میری ماں نے میرے لیے ہمیشہ اتنی زور سے تالیاں بجائیں کہ مجھے کبھی یہ خیال ہی نہ آیا، کس کس نے تالی نہیں بجائی۔

( مصنف: نامعلوم)

Urdu Font Credit: Jamil Noori Nastaliq
Scroll to Top